ہم تكلف میں جو مسکرانے لگے
وہ یہ سمجھے كہ ہم بھی ٹھكانے لگے
اپنی عادت ہے بس پیار سے بولنا
كیوں انھیں شک ہوا ہم منانے لگے
ان كی آمد میں تاخیر تھی چار پل
كیا كہیں چار پل تو زمانے لگے
پیار كا ان كے دل كو یقیں ہو گیا
اب وہ رستے میں كانٹے بچھا نے لگے
حسن كی شان میں ایسی گستاخیاں
ان كی محفل میں ہم گنگنا نے لگے
ایک تصویرِ دِل دِل میں جب سے سجی
گھر كے دیوارو در جگمگا نے لگے
اک نظارے كی نظریں نظر یوں ہو ئیں
سارے موسم ہمیں پھر سہا نے لگے
ان كے آنچل كا جادو عجب چل گیا
جاگتے میں ہمیں خواب آ نے لگے
كچھ انھیں بھی وفا كا یقیں ہو چلا
لوگ رستے میں ہم كو ستا نے لگے
حسن كے سامنے لرزاں اندام ہیں
تیر كیا خا ك ا پنا نشا نے لگے
سب سمجھتے ہیں مسعود كی شوخیاں
آنسوؤں سے وہ شمع بجھا نے لگے