کر گیا وہ بھی حوالے مجھے ویرانوں کے
روز اٹھتے ہیں جنازے جہاں ارمانوں کے
اس کو معلوم تھا مر جائیں گے آنے والے
شمع جلتی ہی رہی عشق میں پروانوں کے
بعد اس کے مرے گھر میں نہ رہے پھول کبھی
وہ جو اک شان ہوا کرتے تھے گلدانوں کے
اس کی باتوں میں سِحر ہوتا تھا جانے کیسا
" صبح تک دور چلا کرتے تھے پیمانوں کے "
کیسے آنُسو وہ چھپا لیتے ہیں سب سے اپنے
قہقہے سن کے کبھی دیکھو تو دیوانوں کے