ہر ادا اس کو مری جادو بھری لگتی ہے
پیار کی بات ہی بس درد سری لگتی ہے
وہ گراتی ہے مجھے سیر پرستانوں کی
میرے سپنوں کی سکھی سبز پری لگتی ہے
ابتدا عشق کی ہے ساتویں آکاش پہ ہوں
اندھا ساون کا ہوں ہر چیز ہری لگتی ہے
بس اسی واسطے بن جاتے ہیں سب دوست رقیب
بات وہ کہتا ہوں جو مجھ کو کھری لگتی ہے
شیخ پر گرنا بھروسہ نہ برہمن پہ حسن
ان کی باتوں میں نہاں فتنہ گری لگتی ہے