ُاس کے لبوں پر میرے لیے انکار نہیں ہوتا
وہ کیسا کرتی ہے پیار جس کا اظہار نہیں ہوتا
فون کر کے خاموش ہو جاتی ہے ۔ ۔ میں کیسے سمجھاؤں
کے فون پر نظروں سے وار نہیں ہوتا
وہ نادان پاگل سی لڑکی مجھ پر مرتی ہے
جس سے ندی کا اک کنارہ بھی پار نہیں ہوتا
گلابوں کو چوم کر ہر بار مجھے کہتی ہے
دیکھو میرا دل تمہارے لیے یوں بے قرار نہیں ہوتا
میں آوارہ لڑکا نجانے کیوں پسند آ گیا ُاسے
وہ کہتی ہے محبت پر کوئی اختیار نہیں ہوتا
ہر روز مجھ پر اک غزل لکھتی ہے
پھر بھی لفظوں میں بیان پیار نہیں ہوتا
یہ دوریاں اور ُجدائی کے لمحے بہت تکلیف دیتے ہیں
میں ُاسے کیسے کہوں کے مجھ سے بھی اور انتظار نہیں ہوت