سب انداز عہد رفتہ کے سکھا گیا مجھے
کم گو تھے ہم، مہارت گفتگو سکھا گیا مجھے
وہ تو جگنو تھا، روشنی سے مزین وجود
رُت جگے میں اک روشن سویرا دے گیامجھے
اُبھر آتی ھےلبوں پہ اک معصوم سی مسکراہٹ
جاتے جاتے یاد ماضی دے گیا مجھے
سکھایا تھا جس نے اُداس لمحوں میں ہنسنا
جُدا ھو کر بھی اپنی یہ عادت دے گیا مجھے
وہ تو تھا متاع جاں، متاع آرزو “فائز“ کی
بدلا ایسا کہ عُمر بھر کی تشنگی دے گیا مجھے