ٹھوکر جہاں لگی وہ سنبھلنے کا تھا مقام
ہم اس کو اتفاق ہی گردانتے رہے
تو ميری التجا پہ خفا اس قدر نہ ہو
تيری جبيں سے اٹھ نہ سکے گا شکن کو بوجھ
کيوں شفق کو شفق نہ سمجھا جائے
کيوں تمناؤں کا لہو کہيے
اک پردہ حائل نے بچھا رکھا ہے اس کو
عرياں ہوا گر حسن تو آئينہ پگھل جائے گا
کہتے ہيں وہ گوہر ناياب عنقا ہوگيا
سنتےہيں اشک ندامات بھی تھا انسانوں کے پاس
تمہاري ياد کا يہ سلسلہ معاذ اللہ
ذرا سا فاصلہ اشکوں کے درمياں نہ ملا
کچھ تو انساں نے پسارا ہے بہت پائے طلب
اور کچھ سائے سمٹتے گئے ديواروں کے
تيرے اصلی روپ سے سب گھبرائيں گے
اس نگری ميں راحت بھيس بدل کر چل
ميراث ہی اس کی ہو يہ خانہ دل جيسے
خواہش نے میرے دل ميں يوں پاؤں پسارے ہيں