مانگی خوشی تو رنج کے افسانے مل گئے
مجھ کو مرے ہی درد کے ویرانے مل گئے
پائی ہے اک گناہ کی سب سے بڑی سزا
اس کی نظر کے مجھ سے جو پیمانے مل گئے
زنبیل ہاتھ میں ہے تو مجھ کو خلوص دو
سمجھوں گی مجھ کو اپنے و بیگانے مل گئے
کچھ بھی نہ مل سکا یہاں تشنہ حیات میں
صد شکر پھر بھی درد کے پیمانے مل گئے
دیکھے جو میں نے سانپ یہاں آستین کے
پھر دفعتا ہی جھوٹ کے پروانے مل گئے
اس کو گمان ہے یہاں اپنے غرور پر
مجھ کو غمِ حیات کے ویرانے مل گئے
کانٹوں کی رہگزر میں بڑھے گا گلوں سے پیار
وشمہ چلیں جو بزم میں مے خانے مل گئے