جو ہو پابند وفا تو ہے دنیا قدموں میں
ذرا سا ڈگمگاؤ تو لوگ نیا سہارا تھام لیتے ہیں
اپنانا بچھڑنا یہ تو دستور محبت ہے
ذرا سی نم ہو پلکیں تو لوگ سر عام تماشا بنا دیتے ہیں
دھوپ میں چھاؤں دیتا وہ شخص بھی سراب سا ہے
ذرا سے زرد ہوں پتے تو اُنھیں بہار بھی گرا دیتی ہے
قدم آبلہ پا ہیں وجود بھی بے کراں ہےذرا کیا ساتھ چھوڑا تو
سفر زندگی بھی صدیوں کی مسافت لگنے لگتی ہے
وہ جو اک شخص جس کو بُھولے بیٹھے ہیں “فائز“
جو یاد آئے تو جیسے ہر زخم ہی کھلنے لگتا ہے