پتھر بن گئے آنسو غم کو بھی نہ گر سکے
ہم اتنے درد سہکر کیوں نہ مر سکے
اپنی زندگی نے یہ بھی امتیاز بخشا
کہ زخموں کا ایک درز بھی نہ بھر سکے
ناپائداری کے زوال کا انحراف کیا کریں
بڑی پیچیدہ تھی الجھن اور غور نہ کر سکے
وہ محیط تھا گہرا لیکن ہمیں کیا پتہ
اپنے ناؤ کو ڈبونے تک نہ ڈر سکے
گردنوا کی اس کشمکش نے ایسے بدر کیا کہ
چڑہ کر خیالی بادلوں پہ نہ اتر سکے
لمحوں سے کئی لمحے چراکے بھی رکھے تھے
پر بس آوارگی کے سوا اور کچھ نہ کر سکے