وہ کہتے ہیں دوست تیرا مقدر نہیں ہوں میں
تم کھوجاؤ اپنے ہوش وہ ساغر نہیں ہوں میں
کیوں الزام گریاں دیتے ہو ظالم خیال کر
چیخوں گا جب ستاؤگے پتھر نہیں ہوں میں
میں اپنے ہی گھر میں کسی قیدی کی طرح تھا
لیکن تمھارے شہر میں بےگھر نہیں ہوں میں
اس تار تار سے دامن پہ جاؤ نہ میرے یاروں
غم سے بھرا اک دل ہے بے ثمر نہیں ہوں میں
برسوں رہا وہ شخص میرے چھونے سے گریزاں
ہاں صادق تلوار بھی نہیں خنجر نہیں ہوں میں