کوئی تراشا ہوا پتھر یا گلاب ہے وہ
جو بھی ہے محفل میں لاجواب ہے وہ
نمود صبح کے روشن ستارے کا عکس
سرمئی بادلوں میں جھانکتا مہتاب ہے وہ
آنکھوں میں اُتر کر روح پہ جو وار کرے
ایسا دلکش میرے چمن کا شباب ہے وہ
بقاء میں اپنی جلا دئیے جس نے میرے سحاب
اُس ہم نشین جفا کار کے ہر سوال کا جواب ہے وہ