پُرعیب اپنی ذات کا جوہرلگا ہمیں
آئینہ ء حیات مکدر لگا ہمیں
سردردکار ِعشق ہے نادان!بازآ
اس راہ پر نہ اے دل ِ خودسر لگا ہمیں
رگ رگ میں دوڑتا پھرے احساس ِ زندگی
اے گردش ِ زمانہ! وہ ٹھوکر لگا ہمیں
شاید یہ استعارہ ہے اپنے زوال کا
سایہ بھی اپنے قد کے برابر لگا ہمیں
دنیا نے اختلاف تواکثر کیا مگر
ہم نے وہی کیا کہ جو بہتر لگا ہمیں
کس طرح ایک عمر کٹی، سوچتے ہیں ہم
اک شخص کیسے زیست کا محور لگا ہمیں
اس کے بغیر ڈوبتے سورج کو دیکھ کر
کتنا اداس شام کا منظر لگا ہمیں
دیکھا جو ماں کو اپنا پسر بیچتے ہوئے
"اک زلزلہ وجود کے اندر لگا ہمیں"