پرندوں کو شجر لگتے ہیں اچھے
سبھی کو اپنے گھر لگتے ہیں اچھے
اداسی کا تو یہ عالم ہے اپنی
فسردہ بام و در لگتے ہیں اچھے
حقیقت میں جو کر سکتے نہیں کچھ
انھیں خوابوں کے گھر لگتے ہیں اچھے
فسانوں کو نہ اتنا طول دیجیے
فسانے مختصر لگتے ہیں اچھے
گزر جائیں جو لمحے چاہتوں میں
وہ لمحے عمر بھر لگتے ہیں اچھے
کبھی شام و سحر کرتے ہیں شکوہ
کبھی شام و سحر لگتے ہیں اچھے
ہے آخر آپ میں کیا بات ایسی
جو دل کو اس قدر لگتے ہیں اچھے
سجا پلکوں پہ رکھوں آنسوؤں کو
دیے تو بام پر لگتے ہیں اچھے