پلکوں کی چادر پے حسین سپنے بچھا کے سو جائے
کیوں نہ آج کی رات ساری دنیا بُھلا کے سو جائے
مان کے اُسے ممتاج اپنی پاک محبت کی
من ہی میں اِک تاج محل بنا کے سو جائے۔
وہ تو نہ آئے گے اب اے دل!
کیوں نہ اُسکی یاد سے یہ جی بہلا کے سو جائے
انتظارِ یار کرتے کرتے اب ستارے بھی سونے لگے
ہم بھی شمع انتظار کی بجھا کے سو جائے
خوابوں میں ہی آجائے تو غنیمت سمجھو نہال
آخری بار اُس کی یہ بات آزما کے سو جائے