اس قیامت کی خموشی میں صدا دے کوئی
غم کے ماروں کو نئے خواب دکھا ہی نہ سکے
سوچتی ہوں ترے بارے تو تڑپ اٹھتی ہوں
میری سوچوں کو سمندر میں بہا ہی نہ سکے
اپنی پلکوں پہ مری یاد کے دیپک رکھے
اشک بہتے ہی ہیں یہ آنسوبچا ہی نہ سکے
جب تری آنکھ میں سنسان سی اک شام اترے
اس قیامت کی خموشی میں صدا ہی نہ سکے
ڈھونڈتی ہے ترے قدموں کو مری تنہائی
ایک بے لوث سی چاہت کو بھلا ہی نہ سکے
زندگی تیری حقیقت کو میں سمجھوں کیسے
ان غضب ناک فضا کو بجھا ہی نہ سکے
قتل بھی دن کے اجالے میں کیا تم نے مجھے
اب یہ کہتے ہو مری لاش اٹھا ہی نہ سکے
یہ مجھے دیکھنے دیتا ہی نہیں اور طرف
میری آنکھوں سے ترا عکس مٹا ہی نہ سکے
اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو چھپا کر وشمہ
تیری یادوں کی اذیت کو اٹھا ہی نہ سکے