انسان اپنے اقدار کی پوشاک بدل رھا ھے
جس مٹی میں تھا خمیر وہ خاک بدل رھا ھے
اب شہروں میں بھی جھونپڑیوں کا زمانہ آ گیا
یوں نکل کر اپنی گلیوں سے املاک بدل رھا ھے
بھوک اور افلاس میں اب سسک رھے ہیں لوگ
یوں ماس نوچ کے ایکدوسرے کا خوراک بدل رھا ھے
گرا دیں ہیں سب دیواریں لوگوں کے مکانوں کی
زمیں کو بھی تنگ کر کے افلاک بدل رھا ھے
اک دوسرے پر تھا بھروسہ اور دل میں تھا یقین
اب کر کے دھوکے بازیاں ادراک بدل رھا ھے