پھر جل اٹھا، امید کا، یہ جان کر دیا
یاروں نے ہم پہ، پھر کوئی احسان کر دیا
دل کا کھنڈر اگرچہ، ویراں تھا دیر سے
امید کے گلوں نے، گلستان کر دیا
اک سنگدل،خنک،بے رحم شخص کی
پیہم نوازشات نے ، ہمیں حیران کر دیا
یادوں کے ٹھہرے پانیوں میں، سنگِ التفا ت
یکدم گرا کے ، واقفِ ہیجان کر دیا
اک عمر بعد ،چل تو پڑی لطف کی ہوا
شوقِ ملن سے، دست و گریبان کر دیا
ہم آپ کی عنایت و اکرام کے طفیل
تھے کس قدرسبک، ہمیں ذی شان کر دیا