چندا کے گرد نور کا ہالہ ہے آجکل
مشکل سے بڑی دل کو سنبھالا ہے آجکل
رنگت اڑی ہوئی ہے تقابل کے خوف سے
پھولوں کو تیرے حسن سے پالا ہے آجکل
لگتا ہے پھر بہار تیری راہگزر میں ہے
پاؤں میں میرے پھر وہی چھالا ہے آجکل
ان وصل کے لمحات کو خود میں سمیٹ لو
سوچوں کو آرزوؤں نے ٹالا ہے آجکل
ہیں ساتھ میرے اب بھی وہی خود فریبیاں
غم کو حسیں خیال میں ڈھالا ہے آجکل
لگتا ہے کسی لب سے کھلی پھر حقانیت
ہر ہاتھ میں اک زہر کا پیالہ ہے آجکل
پھر سردیوں کی خنک ہوا چلنے لگی ہے
ہر سانس تیری یاد کی مالا ہے آجکل