پھر ملاقات کی جیسے کہ یہ رشتہ کیا ہے
دل میں یوں آن بسا، دید کی کہتا کیا ہے
شوخیاں بھول گئے عمر کے ڈھلتے ڈھلتے
آنکھ میں ناچتی معصوم میں رکھا کیا ہے
سب سے مشکل سا لگا، جان کے، عورت ہونا
کچھ بھی پانے کو نہیں، ہے جو ا پنا کیا ہے
زخم اندر ہو یا باہر یہ دکھا سکتی نہیں
عیب تو دور کہیں جسم چھپا کیا ہے
کچھ ہیں باتیں جو اسے سہنا پڑا کرتی ہیں
غیر تو غیر ہیں شوہر سا اچھا کیا ہے
ان کے ایوانوں میں جب بات کرو عورت کی
بات پکڑو جو کہیں بات گھما یا کیا ہے
کوئی انصاف ملے گا اسے اس دنیا میں
کب کہاں جائے ہے اب وشمہ کیا ہے