پھر یوں ہوتا ہے کہ ساروں کو سزا ملتی ہے
Poet: سید ایاز مفتی ( ابنِ مفتی) By: سید ایاز مفتی ( ابنِ مفتی), Houston TX USAبھیک میں مانگے سہاروں کو سزا ملتی ہے
لہر بپھرے تو کناروں کو سزا ملتی ہے
ایک کم ظرف بھی گھس جائے اگر اِس صف میں
ایک ان دیکھی سی یاروں کو سزا مِلتی ہے
آپ کو شوق چرایا ہے تو لے چلتا ہوں
جس جگہ عشق کے ماروں کو سزا مِلتی ہے
سائے جب شام کے آتے ہی نکل جاتے ہیں
گھر تو کیا اسکی دواروں کو سزا ملتی ہے
بے رخی کی جو عدالت میں نہ شنوائی ہو
کتنے مخمور اشاروں کو سزا ملتی ہے
جب بھی مسکان سے بلکوری بنے گالوں پر
لب پہ خواہش کی قطاروں کو سزا ملتی ہے
انکے کاکل جو کریں سایہ کبھی عارض پر
کتنے نورانی نظاروں کو سزا ملتی ہے
زخم دل جب بھی ہرا ہو تو چمن میں دیکھا
سارے سرسبز نظاروں کو سزا ملتی ہے
جب بھی اقلیم خزاں دیکھی چمن زاروں پر
پوچھ مت کتنی بہاروں کو سزا ملتی ہے
جرم جب ضبط کی حد توڑنے کا اشک کریں
پھر جو آنکھوں کے ستاروں کو سزا ملتی ہے
عدل مٹ جاتا ہے یکسر جو کسی بستی میں
پھر یوں ہوتا ہے کہ ساروں کو سزا ملتی ہے
جرم افراد کا ہوتا ہے اگرچہ مفتی
جانے کیوں پھر بھی اداروں کو سزا ملتی ہے
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






