بھیک میں مانگے سہاروں کو سزا ملتی ہے
لہر بپھرے تو کناروں کو سزا ملتی ہے
ایک کم ظرف بھی گھس جائے اگر اِس صف میں
ایک ان دیکھی سی یاروں کو سزا مِلتی ہے
آپ کو شوق چرایا ہے تو لے چلتا ہوں
جس جگہ عشق کے ماروں کو سزا مِلتی ہے
سائے جب شام کے آتے ہی نکل جاتے ہیں
گھر تو کیا اسکی دواروں کو سزا ملتی ہے
بے رخی کی جو عدالت میں نہ شنوائی ہو
کتنے مخمور اشاروں کو سزا ملتی ہے
جب بھی مسکان سے بلکوری بنے گالوں پر
لب پہ خواہش کی قطاروں کو سزا ملتی ہے
انکے کاکل جو کریں سایہ کبھی عارض پر
کتنے نورانی نظاروں کو سزا ملتی ہے
زخم دل جب بھی ہرا ہو تو چمن میں دیکھا
سارے سرسبز نظاروں کو سزا ملتی ہے
جب بھی اقلیم خزاں دیکھی چمن زاروں پر
پوچھ مت کتنی بہاروں کو سزا ملتی ہے
جرم جب ضبط کی حد توڑنے کا اشک کریں
پھر جو آنکھوں کے ستاروں کو سزا ملتی ہے
عدل مٹ جاتا ہے یکسر جو کسی بستی میں
پھر یوں ہوتا ہے کہ ساروں کو سزا ملتی ہے
جرم افراد کا ہوتا ہے اگرچہ مفتی
جانے کیوں پھر بھی اداروں کو سزا ملتی ہے