پھر سے جو اشکبار تھا کیا تھا
درد دل پہ سوار تھا کیا تھا
بیقراری ہی بیقراری تھی
پسِ عکس انتظار تھا کیا تھا
جس کے بدلے میں جی رہی ہوں ابھی
وہ مرا اعتبار تھا کیا تھا
وہ جو تنہا ہی کر دیا تھا مجھے
وہ عدو سے قرار تھا کیا تھا
چار دن کی جو چاندنی تھی مری
مرا عہدِ بہار تھا کیا تھا
آنکھوں میں انتظار تو تھا مگر
چہرے پہ آشکار تھا کیا تھا
تیرے پہلو میں دل نہیں ہے اگر
وشمہ جو بیقرار تھا کیا تھا