پھول پھول کی خوشبوءُ بھنورے جانتے ہیں
اس چلمن میں پھر باغبان کیا کرتے ہیں
جہاں چاہتیں مڑی وہاں راستوں کی مزاحمت
منزلوں کے اتنے ابھمان کیا کرتے ہیں
ہم نے خوابوں کے محل میں ہی ملن پالیا
ان کے رکھے ہوئے دربان کیا کرتے ہیں
ایمان ہی جس محافظ نہ بن سکا
وہاں محبت کے نگہبان کیا کرتے ہیں
نیند نے تنہائیوں میں ہی رات گذارلی پھر
دیؤں پر جل کے ارمان کیا کرتے ہیں
آخر زخموں کی طبیعت فساد سے مل گئی
مرہم آرزو میں درمان کیا کرتے ہیں