پھول کلیوں میں باس اگ آئے
میرے سینے میں یاس اگ آئے
سینئہ سنگ پہ وہ پاوں رکھے
سنگِ مرمر پہ گھاس اگ آئے
ہائے دہقان کتنے پیاسے تھے
کھیتیوں میں گلاس اگ آئے
کیسے ڈھانپے گی پگلی اپنا تن
جب بدن پر کپاس اگ آئے
گھر میں پہلی بہو قدم رکھے
ہر دریچے سے ساس اگ آئے
نسلِ آدم کو دیکھ کر عریاں
مچھلیوں کے لباس اگ آئے
تپتے صحرامیں دیکھ کر بادل
مردہ تن میں بھی آس اگ آئے
وہ کسی شہر بھی چلی جائے
لوگ کچھ آس پاس اگ آئے
اک حسیں چہرہ سوگوار ہوا
کتنے شاعر اداس اگ آئے
سوچ کر کربلا کے سوکھے لب
دل میں دریا کے پیاس اگ آئے
وقت کی دھوپ کے سرکتے ہی
کتنے چہرہ شناس اگ آے
حسن جتنی بھی احتیاط کرے
عاشقوں کی کلاس اگ آئے
محفلوں میں کسی کے آتے ہی
بوڑھی ہڈیوں پہ ماس اگ آئے
مخملیں جسم کی حرارت سے
تن بدن میں بھڑاس اگ آئے
سرخ ہونٹوں کا سوچ کر سید
فکر میں بھی مٹھاس اگ آئے