کہنے کا کیا ہے کہہ دوں میں اپنی زبان سے
ہم بھی تو تھے پیارے کبھی اس کو جان سے
چپ چاپ آکے بیٹھ گئے پہلو میں مرے
وہ رنجشیں بھی ختم ہوئیں درمیان سے
کچھ چوڑیوں کے ٹکڑے بھی کچھ مردہ تتلیاں
مجھ کو ملے ہیں آج پرانے مکان سے
کس کے لیئے یوں لوٹ کر آئے ہو پھر یہاں
جب تیر ہی نکل گیا اپنی کمان سے
پوچھا جو ہم نے یہ کہ کہو رہتے ہو کہاں
اس نے ملا دیا مجھے خالی مکان سے
ان کا ملاتھا آخری خط جس میں تھا لکھا
ہم نے تمہیں نکال دیا اپنے دھیان سے
رب کی پکڑ میں آگئے شاید وہ اب یہاں
ملتا ہے کچھ پتا مجھے اس داستان سے