پہلی ہی مُلاقات میں پیار نہیں ہوتا
کسی کے لئے یوں دل بے قرار نہیں ہوتا
تم کہتے ہو مر مٹے ہیں دل و جان سے ہم
اتنی جلدی کسی پہ دل نثار نہیں ہوتا
ہر کسی سے یوں اظہارِ محبت اچھا نہیں
ہر چہرہ کسی کا یار نہیں ہوتا
آساں ہے اظہارِ محبت بہت لیکن
آتی ہے جو تکلیف اسکا شمار نہیں ہوتا
مکتبِ عشق میں لو پہلے داخلہ
بن اس کے سچا پیار نہیں ہوتا
دیکھ کے ہنسی کو میری خوش نہ ہوا کرو
ہر کھلا پھول خوشبودار نہیں ہوتا
کھائی ہے ایسی چوٹ پیار میں ہم نے
ہر کسی سے اب اس کا اظہار نہیں ہوتا
پہلے ہی دامن داغِ محبت سے بھرا ہے اپنا
کیوں کہتے ہو عاجز داغدار نہیں ہوتا