آنکھوں میں اترا درد تو سارا سمجھ لیا
پہلی نظر کا اس نے اشارہ سمجھ لیا
آنکھوں کا ہے قصور تو اس دل کو کیا کہوں
بجھتے دیئے کی لو کو سرارہ سمجھ لیا
کشتی لگے گی پار وہ لیروں کے ساتھ ساتھ
مججھدار کو بھی جس نے کنارہ سمجھ لیا
رکھا ہے اؒس نے معتبر اپنے غرور کو
میری محبتوں کو خسارا سمجھ لیا
یہ زندگی خدا کی امانت ہے اس لئے
جینے کا اس کو اپنے سہارا سمجھ لیا
مہکیں گے اس کے گلشنِ ہستی کے رات دن
دستِ حنائی جس نے ہمارا سمجھ لیا
پھر نہ کروں گی تم سے شکایت یقین کر
وشمہ جو تم نے مجھ کو دوبارہ سمجھ لیا