پہچان ہی نہیں تو اسے کیا کہوں گا میں
امید سےبیٹھا ہوں انھیں بھی سنوں گا میں
آہیں ہماری سن کر بولے وہ بے پروا
آندھی پہ ہوں سوار کہیں تو رکوں گا میں
کہتے ہو غم سے ہوش سلامت ہیں کیوں میرے
سر پر اڑاتے خاک پھر تجھ سے ملوں گا میں
ڈر ہے یہ غم اب تیری تصویر نہ مٹادے
نقش و نگار بس تیرے سوچا کروں گا میں
بولا اک شاخ گل بڑی سسکیوں کے بعد
توڑیں گے کتنے ہاتھ مجھے جب کھلوں گا میں
صادق کیوں چہرہ دیکھ کے روتے ہیں سب میرا
آہ و بقاہ تب ہوگی خود کو لکھوں گا میں