پیار اب تو کیا نہیں جاتا
دو قدم بھی چلا نہیں جاتا
اس کو کہہ دو نہ چھوڑ کر جائے
ہجر غم اب سہا نہیں جاتا
روز آتا خیال میں ہے مرے
اب تو ایسے جیا نہیں جاتا
کال کرتا نہیں کبھی اب وہ
دکھ مرا تو سنا نہیں جاتا
جانے کس حال میں وہ اب ہوگا
اپنی صورت دکھا نہیں جاتا
آنکھوں میں ان کی ہوتی ہے تصویر
اس لیے تو پڑھا نہیں جاتا
ایک دن بھول پیارے جاتے ہیں
پیار کیا تو سدا نہیں جاتا
کوئی ڈھارس ہی آ کے دے جاؤ
اب کھڑا بھی ہوا نہیں جاتا
روز شہزاد کرتا ہے وعدے
کیوں وہ وعدے نبھا نہیں جاتا