پیار اپنے سے علیحدہ تو نہیں ہو سکتا
اور سخت میرا یہ لہجہ تو نہیں ہو سکتا
اس زمانے میں حسیں لاکھوں ہی ہوں گے لیکن
میرے. مجبوب کے جیسا تو نہیں ہو سکتا
واسطہ میرا نہیں کوئی دغا باز سے یار
اس لیے پیار یہ میرا تو نہیں ہو سکتا
درد غم ہجر مجھے دے رہا ہے جو کب سے
کبھی غم خار وہ اچھا تو نہیں ہو سکتا
سوز ہجراں میں کٹی زیست ہے یوں تو میری
پر یہ دامن مرا میلا تو نہیں ہو سکتا
تیری شہزاد سبھی قسمیں ہی جھوٹی نکلی
تیرا پورا کوئی وعدہ تو نہیں ہو سکتا