پیار جب سولی بنایا جائے گا
درد کو پھر آزمایا جائے گا
سب پرندوں کو اڑایا جائے گا
آشیانہ پھر سجایا جائے گا
اے امیرِ شہر تو بھی سوچ لے
تجھ کو قدموں پر گرایا جائے گا
پیٹ ظالم ہے تو اُس کے ہونٹ کو
زہر کا دریا پلایا جائے گا
چین سے سونے نہیں دیتا مجھے
دل کو دھڑکن میں سلایا جائے گا
مجھ کو دنیا نے دیا تو کچھ نہیں
پھر بھی اُس کو آزمایا جائے گا
جن چراغوں میں وفا کا تیل ہے
اُن کو وشمہ جی جلایا جائے گا