دلکش حسین احساس ہے پیار جسے کہتے ہیں
جینے کے لئیے خوشگوار گزرگاہ ہے پیار جسے کہتے ہیں
میں کیسے اس احساس کو الفاظ میں بیان کروں
کسی کے بس میں نہیں جو پیاس ہے پیار جسے کہتے ہیں
بدلا بدلا لتنے لگا سماں مہکنے لگا چمن بھی
پہلے کبھی جو ہوا نہیں خمار ایسا چھانے لگا مجھ پر
عجب سی بے قراری ہے دل پھر بھی شاد ہے
کیسی انوکھی کیفیت لئیے ہے پیار جسے کہتے ہیں
دن ہیں وہی راتیں بھی ہیں پہلے جیسی
رات ہو گئی ہے مخمور صبح بھی ہے مسرور سی
آنکھوں میں سنہری یاد ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھری ہے
دل کا موسم کس قدر تبدیل کر دیتا ہے پیار جسے کہتے ہیں
چاہت کا احساس لئیے اب مہک سا جاتا ہے میں
شام و سحر انتطار سہوں پھر بھی کھل سا جاتا ہے میں
پروانوں سا مچلوں آوارہ پرندوں سا جھوموں
فاصلے مٹا کر قربتیں دلا جاتا ہے پیار جسے کہتے ہیں