لفظوں لفظوں میں اسے پیار پہ اکسایا ہے
درد بن کے وہ مرے دل میں اتر آیا ہے
ساقیا جب سے جنوں کو میں نے اپنایا ہے
حاجتِ جام میں طوفان امڈ آیا ہے
یہاں معمارِ محبت وہی کہلایا ہے
وہ جسے حرفِ محبت میں نے سمجھایا ہے
دِلِ ویراں میں غمِ زندگی دفنایا ہے
اس سے بنتی ہے مری دکھ مرا ہمسایہ ہے
یہ گُلِ دائودی دم گھٹنے سے مرجھایا ہے
سیف گلشن پہ کئی ناگنوں کا سایہ ہے