پیار کروں کیسے بیاں تجھ کو کیا معلوم نہیں
Poet: Sajid Awan By: Sajid Manzoor Awan, Islamabadپیار کروں کیسے بیاں تجھ کو کیا معلوم نہیں
رکھتی نظر بھی ہے زباں تجھ کو کیا معلوم نہیں
غیروں سے تیرے ملنے سے گزری میرے دل پہ کیا
دل میں اٹھتا ہے طوفان تجھ کو کیا معلوم نہیں
بہلانے سے بہلا نہیں سمجھانے سے سمجھا نہیں
دل تو ٹھہرا ہے نادان تجھ کو کیا معلوم نہیں
دل میں تیرے رہتا ہوں چپ چاپ بہت کچھ کہتا ہوں
کیا میں کروں حالت بیاں تجھ کو کیا معلوم نہیں
تیرے نام کی تختی ہے اوروں کیلیے سختی ہے
دل کا تو ہے خالی مکاں تجھ کو کیا معلوم نہیں
تجھ سے کیا میں بات کروں تیرے آگے کچھ بھی نہیں
عاشق ازل سے ہیں بےزباں تجھکو کیا معلوم نہیں
چلتا خود پہ بس نہیں، پیار نہیں پھر ہے کیا
میں ہوں یہاں تو ہے وہاں تجھ کو کیا معلوم نہیں
بول اب خاموش ہو کیوں غم میں مدہوش ہے کیوں
تو تو ہے ساجد کی جان تجھ کو کیا معلوم نہیں
رشتے سارے جذبات کے ہیں جھوٹی سچی بات کے ہیں
ساجد یہ دنیا ہے سراں تجھ کو کیا معلوم نہیں
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






