چھپتی ہے چھپانے سے کہیں پیار کی خوشبو
سانسوں سے بھی آنے لگی اب یار کی خوشبو
ہم بھول گئے تیری محبت میں ہر اک بات
پر یاد ہے ہم کو ترے اقرار کی خوشبو
یہ شہرِ وفا ہےتمہیں ہر گھر سے ملے گی
احساس کی اخلاص کی ایثار کی خوشبو
تلخی کے سوا اُس نے یہاں کچھ نہیں پایا
جس کو نہ ملی شربتِ دیدار کی خوشبو
ہر روز جہاں چڑھتی تھیں امید کی بیلیں
ہے یاد ابھی تک تری دیوار کی خوشبو
جوخار چبھو یا تھا مجھے تو نے اے جاناں
ہے پھول سے بڑھ کر مجھے اُس خار کی خوشبو
لے آئے پکڑ کر سرِ بازار ہمیں بھی
کیا دیکھیں گے ہم مصر کے بازار کی خوشبو
آتے ہیں معطر سے خیالات ہمیں بھی
روشن ہوئی جب سے ترے افکار کی خوشبو
صحرا سے پلٹ کر اُسے آنا ہی نہیں تھا
واں جس کو ملی لذتِ آزار کی خوشبو
آسیب زدہ شہر کو اِک چپ سی لگی ہے
دیکھو تو کہیں ہے لبِ اظہار کی خوشبو
بارود کی بو نے کیا برباد سبھی کو
ڈھونڈے سے بھی ملتی نہیں گلزار کی خوشبو
نادیدہ سا اِک خوف ہے چھایا ہوا سب پر
اپنوں سے بھی ملتی نہیں گفتار کی خوشبو
جب دین سے رکھا ہی نہیں واسطہ ہم نے
پھرآئے کہاں سے یہاں کردار کی خوشبو
اب کون سخن فہم ہے اس شہر میں یارو
میں کس لئے بانٹوں یہاں اشعار کی خوشبو