پیغام کی خاطر ہوا گویا مرے آگے
بت یاد میں تیری وہ تھا رویا مرے آگے
اب کھیل تماشا ہے یہ معنی نہیں رکھتا
ان آب کے قطروں کا گرنا مرے آگے
میں آپ کے پھر ذکر سے غافل نہیں ہوں گا
اک بار تو آجائیے آقا مرے آگے
جھُک جاتی ادب سے ہیں نگاہیں مری اس پل
جب ذکر کوئی کرتا ہے ان کا مرے آگے
دل دیکھ کہ جل اٹھتا ہے میرا یہاں, اکثر
جب فتنہ کوئی ہوتا ہے پیدا مرے آگے
رہبر نہیں ملتا مجھے منزل نہیں ملتی
یوں ہوتا ہے عالم ترا سُونا مرے آگے
میرے لیے تو قید کے جیسا ہے یہ عالم
مرنا ترے پیچھے ہو یا جینا مرے آگے
آنا صدا تیری پہ مِرا ہوگا اسی پل
گو سامنے ہو آگ کا دریا مِرے آگے
اس آج کی دنیا کے تجھے راز سکھاؤں
غالب تُو ذرا سامنے آنا مرے آگے
ملّت کو جھُکا دیکھ یوں اغیار کے در پر
اقبال کا ہر لفظ ہے جلتا مرے آگے
جب موج میں آؤں تو نگاہوں میں سما لوں
اک قطرہ ہے یہ آب کا دریا مرے آگے
تب دید سے محروم تجھے قیس تھا رکھا
اب رقص یہاں کرتی ہے لیلیٰ مرے آگے
گفتار وہ جھوٹا ہے, وہ سچ سے بھی ہے غافل
تُو بات نہ عامر کی یاں کرنا مرے آگے