یاد ہے اب تلک اک پیکر ناز
جس نے شاعری کو مری دیا آغاز
ہمہ تن گوش اس سے ہونا
فضا میں بج اٹھیں کئ ساز
ہم ہوں گے اک پھانس کی مانند
کہتی ہے مرے دل کی آواز
ذکر اس کا ‘ کاغذ پہ بکھرا
کب رہا پردے میں وہ راز
سینے کی گھٹن کو اپنی ناصر
دے دیا ‘ اظہار کا یہ انداز