چارہ گر ! آج تو کوئی نیا خواب دکھاؤ
عجب قال پڑا ہے زمین دل پر
مہیب سا اسناٹا گونجتا ہے
چاروں اور
ایک خلا سا ہے شہر ذات میں
اس لئے میرے مسیحا
جوہر مسیحائی دکھاؤ
کوئی نیا خواب
کوئی نئی امنگ
کوئی نیا ساز
کوئی نئی جہت۔
کچھ تو راہ سجاؤ
ہے عجب سی وقت کی بے نیازی
ہر رشتے،ہر محبت میں ہےخودفریبی
مجھے بھی کچھ خودپسندی سکھاؤ
میرے چارہ گر! کوئی راہ سجاؤ
یہ نیلام کس کی ذات کا ہے؟
لگ رہی ہے بڑھتی ہوئی یہ بولی کس کی؟
ارے! مجھے ان سوداگروں سے بچاؤ
میرے راہبر! کوئی نئی راہ دکھاؤ
اتر جائے روح کی ساری تھکن
میرے پیامبر! کوئی ایسا پیغام سناؤ
کھل جائے مجھ پر بھی عشق کی حقیقت
نعرہ تم بھی منصور جیسا لگاؤ