چاندنی رات تھی کل یاد وہ آیا کُھل کر
یاد آتے ہی مجھے اُس نے رُلایا کُھل کر
میرے محبوب نے چُھپ چُھپ کے نہ دیدار دیا
چہرہ جب اُس نے دِکھایا تو دِکھایا کُھل کر
پیار جب اُس نے کیا مجھ سے تو جی بھر کے کیا
جب ستایا بھی تو پھر اُس نے ستایا کُھل کر
چھوڑ تو مجھ کو گیا پر تھا وفادار بہت
میں نے یوں سینے سے غم اُس کا لگایا کُھل کر
اشک ٹھہرے نہ نظر آۓ کسی آنکھ میں پھر
اپنا غم جب بھی کبھی میں نے سُنایا کُھل کر
جب مری آنکھ میں آنسو نہ رہے رونے کو
دوستوں نے مجھے پھر خون رُلایا کُھل کر
رات تنہا جو ہُوا ٹوٹ کے رویا وہی شخص
جس نے ہر ایک کو محفل میں ہنسایا کُھل کر
آج باقرؔ مجھے پھر یاد اُسی کی آئ
پھر کسی نے مرا دل آج دُکھایا کُھل کر