میں چاند کے سامنے بیٹھا ہوں
حسرت سے اُسے میں دیکھتا ہوں
حیرت میں مُجھے وہ گھُورتا ہے
اُلجھن میں اچانک پُوچھتا ہے
عہبر اے میرے ہم خالق
اے جانِ جگر ناداں شاعر
تُو دِل کا شکستہ کیونکر ہے؟
کیوں روگ لگائے بیٹھا ہے؟
دُنیا سے کیوں تُو ہارا ہے؟
میں مست تخیل کہتا ہوں
اے چاند اے میرے ہم خالق
اے روشن ہالہ قدرت
میں دِل کا شکستہ
کِس نے کہ؟
میں ہارا ہوں؟
میں کَس سے لڑ؟
میں روگی ہوں؟
کیوں کَس سے سُنا۔۔۔؟
کِسی دوست نے غلط بتایا ہے۔۔۔
احباب سے میری جنگ نہیں!
مخلوقِ خُدا سے بیر نہیں
میں رب کو سجدہ کرتا ہوں
میں اِن سے محبت رکھتا ہوں
میں بے بس ہوں۔۔۔!
بے حِس تو نہیں۔۔۔۔!
میں لاکھ خطائیں کرتا ہوں!
سو لاکھ سزائیں پاتا ہوں۔۔۔!
میں کیسے لڑوں گا اپنوں سے
مُجھے اِن سے یوں مایوس نا کر
بس دان کئے ہیں کُچھ سپنے!!
اے چاند میں اِن سے ہارا نہیں