چاند بھی اپنی جوانی پہ تھا
سارا ماحول بس کہانی پہ تھا
شوخ تھی میں ابھی کہ محبت کر لی
دل کا طوفان اپنی روانی پہ تھا
کھوئی رہی میں لاحاصل کی چاہ میں
دل میرا اسی نادانی پہ تھا
محبت کے صحرا میں بھٹکتی رہی
تپتی ریت پر پاؤں نشانی پہ تھا
اک وعدہ تیرا تھا اک وعدہ میرا تھا
میں وعدے پر قائم رہی تو بے ایمانی پہ تھا
تباہ کرنے والے کہیں سے آ تباہ کر جا
دل کا موسم اسی شادمانی پہ تھا
کاش میرا درد تیری دعا بن جاتا
نظروں کا تقاضا اسی حیرانی پہ تھا
خیر خواہ تو بہت ہیں میرے یہاں
لیکن درد ٹکا تیر نظر ثانی پہ تھا
میری تحریروں سے پگلھنا مت اب تم
میری رسوائی کا قصہ ہر کسی کی زبانی پہ تھا