غم دوراں سے ملے فرصت تو اسے یاد کرتا ہوں
جس کی خاطر زیست کو ناشاد کرتا ہوں
اس کے چہرے کو جب چاند سے تشبیہ دیتا ہوں
وہ کہتی ہے کہ میں باتیں بے بنیاد کرتا ہوں
مجھے دنیا والوں سے جب سچا پیار نہیں ملتا
اپنے تخیل سے محبت کی بستیاں آباد کرتا ہوں
دوستی جیسے انمول رشتےمیں جب کوئی باندھ لے
ایسے بندھن سے خود کو نہ آزاد کرتا ہوں
میرے سخن کو وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے
جن کی خاطر اپنا قیمتی وقت برباد کرتا ہوں
کسی کی زندگی میں کوئی غم نہ آہے اصغر
اپنے رب سے ہر پل یہی فریاد کرتا ہوں