چاند یوں کچھ دیر کو آتے ہو چلے جاتے ہو
میری نظروں سے چھپ کر بادلوں میں شرماتے ہو
مجھ کو گرویدہ اپنے حسن کا بنا کر
پھر پیار سے دوری کا حکم فرماتے ہو
چاند کیسے آفتاب کی جگہ لے کر تم
کس ادا سے جلوۂ نور اپنے سر منواتے ہو
ہر دن مجھ سے محوِ گو ہو کے
تم کس طرح مناظرِ خواب دکھاتے ہو
چاند ہم روز تمہاری قربت کو ترس جاتے ہیں
اور تم ہو کہ ستاروں میں محفل سجاتے ہو