چراغ ہجر جلا کر بھی روشنی نہ ہوئی
کس پہر چاندنی اُتری کوئی خبر نہ ہوئی
تیرے تصورات کی رنگینیوں کے موسم میں
شب ڈھلی ساتھ تمنا حشر ہوئی
غم فراق اور تنہایوں کا عالم تھا
اِسی تذبذب میں طلوع سحر ہوئی
رخ روشن کی جھلک گمان سے بڑھتے بڑھتے
نگارِ شوق سے اوجِ قمر ہوئی
ہم اہل وفاءمثل زمانہ ہوئے چلے
آہ دل کی نہ کوئی تم پہ اثر ہوئی