چشمِ یاراں خُمار کی صورت
خامشی میں پُکار کی صورت
اُس کی باتوں میں گنگناتا ہے
کوئی جھرنا کہیں آبشار کی صورت
اُس کا ہنسنا ، چمن کی بُود و باش
گلوں کے رنگ ، نویدِ بہار کی صورت
جمالِ یار ، خاص باعثِ انوار
تابشِ شمسِ نِصفُ النَہار کی صورت
ہم ترے عشق کے الاؤ میں
جل بجھے ہیں انگار کی صورت
نخلِ جاں پہ فصلِ گل میں تیری یاد
کِھل گئی ، برگ و بار کی صورت
اُس کے وعدے نہیں سوائے فریب
جل بجھے سب ، شرار کی صورت
ملول لطف پہ اور ستم پہ ہیں شاداں
بدل دی تم نے عیش و قرار کی صورت
عشق کا کھیل جیتنا ہے اگر
ڈھونڈ لو کوئی ھار کی صورت
تھی شبِ ہجر یُوں طویل و سیاہ
ہُو بہ ہُو ، گیسوئے یار کی صورت
گاہ جینا بھی ، گاہ مرنا بھی
حیات یعنی ، مسلسل آزار کی صورت
جی جلانا ہے جی کا آ جانا
خزاں میں ڈھلنا بہار کی صورت
پا گئے ، رفعتوں کا اوجِ کمال
جو بنے انکسار کی صورت
جتنی بڑھتی ہے اتنی گھٹتی ہے
زندگی ، ہجرِ یار کی صورت
عمرِ کوتاہ ، اُس سخی کی عطا
ساعتِ وصلِ یار کی صورت