آج فرصت ہے چلو اسے سوچا جائے
کیوں نہ حد سے بڑھ کے دیکھا جائے
ریزے کم ہی بکھرے ہیں آئینہ دل کے
آؤ پھر اک اور پتھر پھینکا جائے
ابھی ہوش سے ہوں بیگانا میں
شہر چھوڑ کے صحرا کو جایا جائے
اب رہتا ہوں اداس ساون میں
تنہا ہم سے تو نہ اب بھیگا جائے
شب بھر تو ٹھہر جا اے یاد یار
دل یہ چاہتا ہے آج پھر رویا جائے
شہر کے خریداروں میں شامل ہو تم
مظہر آؤ آج زخموں کو بیچا جائے