چلو لکھتے ہیں کہانی وفاؤں کی
Poet: اسماء آفتاب By: اسماء آفتاب , Wazirabadچلو لکھتے ہیں
کہانی وفاؤں کی
نہ غم کی نہ اناؤں کی
اس میں لکھیں گے
کہ وہ کیسے جیے؟
جن نے لب نہیں سیے
جو بولتے تو کوئل سنتی
وہ ہنستے تو کلی پھول بنتی
وہ لکھ کے پھینکتے دریا میں
دریا سنوار کے لکھتا
نظر اٹھا کر تکتے جس کی طرف
وہ اسیر اس پہ مر مٹتا
وہ جو کہتے کہ ہم آتے ہیں
شہر کے پھول کھل جاتے ہیں
یہ سب کھو گیا اس سے
محبت ہو گئی اس کو
وہ اک سادہ سی لڑکی تھی
وہ چاند سے باتیں کرتی تھی
پتھروں کو حال سناتی تھی
دریا کو دل کی بات بتاتی تھی
پھول سے دل لگاتی تھی
وہ اک سادہ سی لڑکی نے
کہانی موڑ ڈالی تھی
نہ خوشی رہی نہ وفا رہی
اک بے وجہ سی سزا رہی
وہ پھول بکھر گئے ہیں
وہ پرندے اڑ گئے ہیں
وہ دریا سوکھ گئے
وہ اسیر روٹھ گئے
رہ گئے غم
رہ گیا اشکوں میں اک نم
اس نم میں رہ گئی
اک سادہ سی لڑکی
وہ اک سادہ سی لڑکی نے
کہانی موڑ ڈالی ہے
ڈالی جو بنیاد مصنف نے
وہ بنیاد توڑ ڈالی ہے
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






