رجا بہار کی رکھتے ہو تم عبث ہمدم
کہ مرغزاروں میں غنچے نہیں ہیں شعلے ہیں
امن کی کوئی بھی تدبیر کارگر نہ ہوئی
فضا میں زہر ہے ، آتش ہے ، سرخ گولے ہیں
جدل سے مسئلہ کوئی ہوا ہے حل سوچو ؟
جدل نے لاکھوں مسائل کے باب کھولے ہیں
اگر ہے ہار ہزیمت تو جیت لاحاصل
کہ خون دونوں طرف آدمی کا بہتا ہے
گریں جو بم کھڑی فصلوں پہ تو اے انسانو !
ذرا یہ سوچو کہ انساں ہی بھوکا رہتا ہے
سہاگ اجڑیں گے کتنے ، یتیم ہوں گے کئی
جدل سے کنبئہ آدم ہی رنج سہتا ہے
لہو ہے ایک ہمارا ، ہم ایک ہیں انساں
بچا لیں اپنا لہو ، ہم بچا لیں اپنا نشاں
ہے دوستی ہی بھلی آؤ دوستی کر لیں
چلو کہ لوٹ چلیں اپنے اپنے گلشن میں
نوٹ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی وقت سرحدوں پہ جنگ کے بادل چھا رہے تھے اسی پس منظر میں یہ تحریر کی گئی تھی جسے دوستوں کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں ۔۔۔ میری اس ویب کے ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ اگر میں اپنی کسی نظم کے ساتھ کوئی وضاحتی نوٹ تحریر کروں تو اسے ضرور آن لائن کر دیا کریں تاکہ پڑھنے والوں کے ذہن میں کوئی ابہام پیدا نہ ہو ، ، ، شکریہ