چلے آو تم جہاں ہو کہیں رات ڈھل نہ جائے
کیا آج کا ہی وعدہ کہیں دن بدل نہ جائے
جہاں تم نظر اٹھاؤ وہاں دن نکل رہا ہے
نہ جھکاؤ تم نگاہیں کہیں رات ڈھل نہ جائے
ذرا اپنے دل سے پوچھو تمہیں کتنا چاہتا ہوں
غم؍ عشق کی بدولت میرا دل بدل نہ جائے
کہا نامہ بر نے مجھ سے ذرا احتیاط کیجیے
وہ تپش ہے خط میں تیرے کہیں ہاتھ جل نہ جائے
میں رہوں گا تم سے غافل میرے روبرو نہ ٓاو
تمہیں دیکھ کر کہیں پھر میرا دل مچل نہ جائے
یہی التجا ہے ان سے اے نواز میری ہر دم
کسی اور کے لبوں پر یہ مری غزل نہ جائے