چل رہی ہے ہوا دسمبر کی
بات کوئی بتا دسمبر کی
برف باری ہو ہی رہی ہے اب
چل رہی ہے گھٹا دسمبر کی
آتا کچھ بھی نظر نہیں ہے اب
مل رہی ہے سزا دسمبر کی
راج دھند کر رہی افق پر ہے
رات ہے دن جفا دسمبر کی
کچھ دکھائی ہی اب نہیں دیتا
ہے بنی کربلا دسمبر کی
گھر سے باہر نہ نکلو اب بچو
ہے یہی التجا دسمبر کی
مت نکلنا ابھی ادھر سے ادھر
ہے کرونا وبا دسمبر کی
ہو ادارے گئے ہیں بند سارے
سرد ہے اب ہوا دسمبر کی
طے مسافت بھی کرنی ہے شہزاد
بن گئی دھند فضا دسمبر کی