چل واپس لوٹ چل
Poet: anam By: anam, karachiاے میرے نادان دل چل واپس لوٹ چل
آگے رستہ مشکل ہے چل واپس لوٹ چل
چل توں میری بات مان اب توں ضد نا کر
آگے گہری کھائی ہے چل واپس لوٹ چل
دل کے ٹکڑے ہوتے ہیں سانسوں میں درد رہتا ہے
زندگی غموں کے پنجرے میں تڑپتی ہے چل واپس لوٹ چل
صدیوں کی مسافت ہے کانٹوں بھرا سفر ہے
کس نے منزل پائی ہے ؟ چل واپس لوٹ چل
صحرا کی سی پیاس ہے آنکھیں ہر پل رہتی اداس ہیں
محبت کس کو آئی راس ہے ؟چل واپس لوٹ چل
عشق آگ کا دریا ہے اور ننگے پاؤں چلنا ہے
ہر کسی نے شکست کھائی ہے چل واپس لوٹ چل
دو پل کا ملن ہے پھر عمر بھر کی جدائی ہے
عشق نے ہر بار قیامت ڈھائی ہے چل واپس لوٹ چل
انعم تم نے کیا بات کر دی
کیسے واپس لوٹ جاؤں
محبوب کو تنہا چھوڑ جاؤں
اس کے ناز کون اٹھائے گا
اسے پلکوں پر کون بٹھائے گا
اس کی راہوں سے کانٹے کون اٹھائے گا
پیروں تلے جان کے پھول کون بچھائے گا
مانا کہ سفر بڑا مشکل ہے یہی میرا مقصد ہے
اب یہی میری عبادت ہے یہی میرا حاصل ہے
چل توں میرے ساتھ چل اب توں میرے ساتھ چل
چل اب توں ضد نا کر اب توں میری بات مان
چل توں میرے ساتھ چل اب توں میرے ساتھ چل
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






